top of page

February 9, 2018 | 12:00 PM

کیا معصوم زینب کو انصاف مل پائے گا؟

شہزادحسین طوری

ایک سوال اور

در اصل زینب اور اس جیسی اور معصوم جانوں کو اس معاشرے نے کم زور بنایا ہے۔
اس طرح کے حملہ آور صرف ذہنی طورپر پریشان نہیں یا وہ لوگ نہیں جو اس معاشرے کے کنارے پہ رہتے ہیں بلکہ یہ لوگ ہمارے تصور سے کئی آگے ہیں۔کیونکہ یہ لوگ اس ملک میں معافی کے ساتھ ایسی وارداتوں پہ راج کرتے ہیں ۔کئی سال پہلے قصور بچوں سے ذیادتی کا گھڑ تھا جس میں 280 بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔
معصوم زینب کا قتل معاشرے کی کچھ گندے انڈوں سے ذیادہ نامعسود کہانی سنا رہا ہے۔یہ بدر شاہی حکومت ہے۔یہ جنسوں علیحدگی ہے۔یہ وہ مردانگی ہے جو نفسیاتی سنسنی کے اس زہر میں پروان چڑھتی ہے جہاں پر عورت کو دبایا اور کچل دیا جاتا ہے۔

بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں بچے"لڑکی"پر ایک جنگ شروع ہوا ہے۔جس کو ٓآدمی نے اجرت دی۔ سکولوں میں استاد نے اجرت دی۔کبھی والدین اور رشتہ داروں نے اس کو اجرت دی۔یہاں تک کہ ماؤ ں نے اپنی لخت جگر کو اس بدرشاہی کی نظام سے بچانے کیلئے اجرت دی ۔ان کو گھروں سے باہے نا جانے دیا ، ان سے ان کے پڑھنے اور کھیلنے کا حق چین لیا۔
پھر بھی وہی ہوتا ہے جو زینب کے ساتھ ہوا۔معاشرہ بچے کی حفاظت کی تمام ترذمہ داری فراہم نا کرنے کا قصور وار اس کے خاندان کو ٹہرتا ہے۔جو کہ اس کے والدین پر نہیں بلکہ ریاست پر عائد ہوتی ہے۔
بدرشاہی کا نظام ٹالا نہیں جاسکتا بلکہ اس کو عوامی طاقت کے زور سے ختم کرنا ہوگا۔کیونکہ یہ نظام ظلم اور تشدد کا نظام ہے۔دراصل یہ نظام عورت ذات کو چھوٹا سمجھتا ہے اور عوام کی نظروں سے اور ترقی یافتہ اداروں سے دور ہٹانا چاہتا ہے۔اور جب ایسا نہیں ہوتا تو یہ لوگ ایسی غلیظ کام کرتے ہیں۔

جنسی حوس کے پوجاری ابھی بھی بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔کچھ روز قبل سماجی رابطوں کے ویب سائٹ پر ایک لڑکی نے ایک پیغام دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ باہر نکلی توکئی لڑکوں نے اس کے ساتھ اس کے گھر والوں کے سامنے بدتمیزی کی جس پر اس کے بھائی نے بچانے کی کوشش کی مگر اس کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا

ظاہر ہے ایک لڑکی کیلئے اس سے ذیادہ شرم کا مقإم کیا ہوگا کہ کوئی اس کے ساتھ اس کے گھر والوں کے سامنے بدتمیزی کرے اور بات یہی پر ختم نہیں ہوئی جب لڑکی نے اپنے غصے کا اظہار اور حقوق کیلئے آواز اٹھائی اور سماجی رابطوں کے ایک ویب سائٹ پر کیا تولوگوں نے مثلے کے حل کی بجائے نہ صرف اس پر منفی ردعمل کا اظہار کیا بلکہ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ" تم گھر سے باہر کیوں نکلی؟" یعنی لوگوں نے صرف اس بات پہ توجہ رکھی کہ وہ گھر سے نکلی مگر اس بات پہ توجہ تک گوارہ نا کیا کہ اس کے ساتھ بد تمیزی کی گئی ہے اور بڑے افسوس کہ ساتھ یہی ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا عالمیہ ہے کہ ہم مسلے کہ حل پر کبھی بھی توجہ نہیں دیتے اور ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہیں ۔

اسی طرح "زینب " کے واقع بھی ہے جس سے مجھ سمیت سارے پاکستان کو خون کے آنسو رلایا ہے مگراس کے ساتھ ساتھ مجھے خوف آتا ہے کہ جس ملک میں ،میں جوان ہوا ہوں وہاں ہمارے ننھے اور معصوم بچوں کا کیا مستقبل ہے؟ اب ہوا کیا کہ سیاست دان اپنی سیاست چمکانے کیلئے نکلے اور بتا یا کی ہم کچھ نہ کچھ کر لے گے سب نعرے بھی لگا رہے ہیں اس مسلے پر میڈیا پربھی آواز اٹھائی جارہی ہے غصہ تو سب نکال رہے ہیں چاہے وہ سوشل میڈیا پر ہو یا عام زندگی میں سب غصہ تو نکال رہے ہیں غصے سے مسلہ واضع تو ہو جاتا ہے مگرحل کبھی نہیں ہوگا۔اب ہمیں اس طرح کے مسائل کے حل کرنے پر وجہ دینا ہوگی اسی لئے کوئی جلدی نہیں کہ حکمران اور سیاست دان جوان لڑکیوں خصوصاً چھوٹے بچیوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھائے کیونکہ اس میں انکا کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہے اور ویسے بھی لڑکیاں کچھ کرتو سکتی نہیں اسی وجہ سے حکمران اور سیاست دان سب سے آخر میں ان کو رکہتے ہیں۔

پاکستان میں خواتین پر تشددبھی بہت زیادہ ہے۔اگر آپ ایک عورت ہو توآپ پر تشدد ہوگا۔تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کے مطابق ہردس"10" میں سے نو"9"خواتین کوزندگی میں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایک چونکا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ بہت ہی کم خواتین بچنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔
ریپ ،خاص طور پر بچو ں کا ریپ پاکستان میں طاقت کا ایک کھیل ہے۔اب تک اسکی بہت اچھی تحقیقات کی گئی ہے۔اسلامی نظریاتیکونسل نے مشتبہ افراد کی ڈی این اے کوثبوت کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔اس کے علاوہ ریپ جس انداز سے کیا جاتا ہے وہ بہت ہی ہولناک ہے۔ایسو سی ایٹڈ پریس پاکستان کے مطابق مذہبی مدارس میں جتنے بھی بچے اوربچیاں پڑھتی ہیں ان میں سے سترہ فیصد"%17" بچوں کا معمول کے مطابق ریپ ہوتا ہے۔یہ اخلاقی منافقت اور ہمت دونوں میں یکساں اور مکمل طور پر موجود ہے۔اب بات یہاں تک آن پہنچی ہے کہ والدین کو بچوں کی حفاظت کرنی ہو گی یا پھر بچوں کو خود۔ اب ریاست سے کوئی امید نہیں لگانی چاہئے

یہ ہر پاکستانی کیلئے شرم کا مقإم ہے کہ ہے پاکستانی یہ جانتے ہوئے بھی کہ جنسی ذیادتی کاانجام کیا ہے مگرپھر بھی سب کے سب خاموش ہیں۔ایک نظریے سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ اس کو معاشرے کے طورپرلانا چاہتے ہیں کیونکہ یہ ہرکسی کو فحاشی کی طرف دھکیلنا چاھتے ہیں۔

عورت میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ کسی مرد کی بری نظریا نیت سے خود کو بچا سکے۔یہی وجہ ہے کہ جس نے اس سے انکارکیا ہے اسے تشدد کانشانہ بنایاگیا ہے اورکئی کو تو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔تیزاب پھینکناتو اب روز کی کہانی سی بن گئی ہے۔ ایک عورت کبھی بھی جسمانی ، ذہنی اور معاشی طورپر اتنی طاقتور نہیں ہو سکتی کہ وہ کسی آدمی کے بڑھتے ہوئے برے قدموں سے خود کو بچا سکے خصوصاً ایک طاقتورآدمی کوذیر کرنے میں ہمیشہ ناکام رہتی ہے۔ٹھیک اسی طرح سے زینب کہ واقعے میں بھی ہوا کہ اس معصوم جان کی لڑائی ایک طاقوت ور آدمی کے ساتھ تھی۔ ایسے معاشرے میں جس میں خراب اخلاقیات اورجنسی تسکین کو فروغ دینے کیلئے لوگ کام کرتے ہیں ایسے معاشرے میں یقیاً کچھ خرابی ہوگی۔ایسے معاشرے میں بہت کا م کی ضرورت ہے خاص طور پر اخلاقیات اورثقافت کو فروغ دینے پر جو کہ کبھی بھی برے کاموں کی عکاسی نہیں کرتا۔
زینب کے واقعے نے پورے پاکستان کادل دہلا دیا ہے، اس کے جنازے کوپوری قوم نے آنسؤں کے ساتھ سپرد خاک کیا لیکن صرف غم و غصہ کافی نہیں بلکہ ریاست کوصنفی مساوات کا رعایتی رویہ ختم کرنا ہوگا اوراسکے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو بھی اپنانا ہوگا کہ یہ عورتوں کیلئے یہ ایک بدترین ملک ہے کیونکہ یہاں پر عصمت دری کے قوانین میں شک پایا جاتا ہے۔یہی وہ مسلہ ہے جس کو درست کرنا ہوگا۔صرف اور صرف مذمت کرنا اب ایک پرانی دہن ہے۔جس کو بار بار اور بے فائدہ بجایا جارہاس ہے۔

پنجاب کے ضلع قصور سے تعلق رکھنے والی آٹھ سالہ معصوم بچی "زینب"جو معمول کے مطابق صبع اپنے سکول گئی لیکن سکول کے بعد وہ اپنے گھر واپس نہ پہنچ سکی معصوم زینب کے والدین بھی ملک سے باہر عمرہ کیلئے گئے تھے ۔ظلم کی انتہا تو یہ تھی کہ ایک انسان نما جانور نے اس معصوم کلی کو باربار جنسی زیادتی کا نشانہ بنایااور پھر اس کی لاش ایک گندگی کے ڈھیر پر پھینک دی۔جس کو چار دن بعد اس کے کالے اور سفید سلیک اور سکول کے سرخ لباس میں پایا گیا۔ شواہد سے معلوم ہوا کہ ا س کے ہاتھوں کو کسی مظبوط مٹھیوں میں دبایا گیا تھاتاکہ اس معصوم کے حملوں سے بچا جاسکے۔وہ اس آدمی سے کئی گنا چھوٹی اور کم زور تھی جس کو سی سی ٹی وی فوٹیج میں صاف دیکھا جاسکتا ہے۔
 

bottom of page